Tuesday, June 12, 2018

ابوالکلام آزاد ؒ عروج و زوال کے فطری اصول

مولانا ابوالکلام آزاد ؒ

عروج و زوال کے فطری اصول

تم کرہ ارض کی کوئی قوم لے لو اور زمین کا کوئی ایک قطعہ سامنے رکھ لو،جس وقت سے اس کی تاریخ روشنی میں آئی ہے اس کے حالات کا کھوج لگاؤ تو تم دیکھو گے کہ اس کی پوری تاریخ کی حقیقت اس کے سواکچھ ہے کہ وارث و میراث کی ایک مسلسل داستان ہے یعنی ایک قوم قابض ہوتی پھر مٹ گئی  اور  دوسری وارث ہو گئی۔پھراس کے لیے بھی مٹنا ہوا  اور  تیسرے وارث کے لیے جگہ خالی ہو گئی۔وھلم جرا قرآن کہتا ہے یہاں وارث و میراث کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب سوچنایہ چاہیے کہ جو ورثہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں، کیوں ہوتے ہیں  اور  جو وارث ہوتے ہیں کیوں وراثت کے حقدار ہو جاتے ہیں۔ فرمایا اس لیے کہ یہاں خدا کا ایک اٹل قانون کام کر رہا ہے کہ:۔

ان الارض یرثھاعبادی الصالحون(105:21)

کہ زمین کے وارث خدا کے بندے ہوتے ہیں۔

یعنی جماعتوں  اور  قوموں کے لیے یہاں بھی یہ قانون کام کرہا ہے کہ انہی لوگوں کے حصہ میں ملک کی فرماں پذیری آتی ہے جو نیک ہوتے ہیں، صالح ہوتے ہیں۔ صلح کے معنی سنوارنے کے ہیں۔ فساد کے معنی بگڑنے  اور  بگاڑنے کے ہیں۔ صالح انسان وہ ہے جو اپنے کوسنوارلیتا ہے  اور  دوسرے میں سنوارنے کے استعدادپیدا کرتا ہے  اور  یہی حقیقت بد عملی کی ہے پس قانون یہ ہو کہ زمین کی وراثت سنورنے  اور  سنوارنے والوں کی وراثت میں آتی ہے۔ ان کی وراثت میں نہیں جو اپنے اعتقادو عمل میں بگڑ جاتے ہیں  اور  سنوارنے کی جگہ بگاڑنے والے بن جاتے ہیں۔

تورات،انجیل  اور  قرآن تینوں نے وراثت ارض کی ترکیب جا بجا استعمال کی  اور  غور کرو یہ ترکیب صورت حال کی کتنی سچی  اور  قطعی تعبیر ہے۔ دنیا کے  ہر گوشے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرح کی بدلتی ہوئی میراث کاسلسلہ برابر جاری رہتا ہے یعنی ایک فرد اور ایک گروہ طاقت و اقتدار حاصل کرتا ہے۔ پھر وہ چلا جاتا ہے  اور  دوسرا فرد یا گروہ اس کی ساری چیزوں کا وارث ہو جاتا ہے۔ حکومتیں کیا ہیں، محض ایک ورثہ ہیں۔ جو ایک گروہ سے نکلتا ہے  اور  دوسرے گروہ کے حصہ میں آ جاتا ہے۔ پس قرآن کہتا ہے ایساکیوں ہے، اس لیے کہ وراثت ارض کی شرط اصلاح و صلاحیت ہے۔ جو صالح نہ رہے ان سے نکل جائے گی۔جو صالح ہوں گے ان کے ورثہ میں آئے گی۔

فلن تجدلسنت تبدیلاولن تجدلسنت اللہ تحویلا(43:35)

سورۃ رعد میں فرمایا۔یہ جو کچھ بھی ہے، حق  اور  باطل کی آویزش ہے۔ لیکن حق  اور  باطل کی حقیقت کیا ہے۔ کونساقانون ہے جواس کے اندر کام کر رہا ہے۔ یہاں واضح کیا ہے کہ یہ بقاء انفع کا قانون ہے۔ لیکن وہ کبھی لفظ انفع کی بجائے لفظ اصلح استعمال کرتا ہے۔ لفظ دو ہیں معنی ایک ہے یعنی اللہ نے قانون ہستی کے قیام و اصلاح کے لیے یہ قانون ٹھہرایا ہے کہ یہاں وہ چیز باقی رہ سکتی ہے جس میں نفع ہو۔جس میں نفع نہیں وہ نہیں ٹھہرسکتی۔اسے نابود ہو جانا ہے کیوں کہ کائنات ہستی کا یہ بناؤ،یہ حسن،یہ ارتقاء قائم نہیں رہ سکتا۔اگراس میں خوبی کی بقاء  اور  خرابی کے ازالے کے لیے ایک اٹل قوت سرگرم کار نہ رہتی۔یہ قوت کیا ہے، فطرت کا انتخاب ہے، فطرت ہمیشہ چھانٹتی رہتی ہے۔ وہ  ہر گوشہ میں صرف خوبی  اور  برتری ہی باقی رکھتی ہے فساد اور نقص محو کر دیتی ہے۔ ہم فطرت کے اس انتخاب سے بے خبر نہیں ہیں۔ قرآن کہتا ہے اس کار گاہ فیضان و جمال میں صرف وہی چیز باقی رکھی جاتی ہے جس میں نفع ہو کیوں کہ یہاں رحمت کارفرما ہے  اور  رحمت چاہتی ہے کہ افادہ فیضان ہو۔وہ نقصان گوارا نہیں کر سکتی۔وہ کہتا ہے۔ جس طرح تم مادیات میں دیکھتے ہو کہ فطرت چھانٹتی ہے۔ جو چیز نافع ہوتی ہے اسے باقی رکھتی ہے  اور  جو نافع نہیں ہوتی اسے محو کر دیتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک عمل ایساہی معنویات میں بھی جاری ہے جو عمل حق ہو گا قائم  اور  ثابت رہے گا،جو باطل ہو گا مٹ جائے گا  اور  جب کبھی حق و باطل کا مقابلہ ہو گا تو بقاء حق کے لیے ہو گی نہ کہ باطل کے لیے۔ وہ اسی کو قضاء بالحق سے تعبیر کرتا ہے یعنی فطرت کا فیصلہ حق جو باطل کے لیے نہیں ہوسکتا۔

فاذاجآء امراللہ قضی بالحق وخسرھنالک المبطلون(78:40)

یعنی جب فیصلہ کا وقت آ  گیا تو فیصلہ حق نافذ کیا گیا  اور  باطل پرست تباہ و برباد کئے گئے۔ وہ کہتا ہے اس قانون سے تم کیوں انکار کر سکتے ہو،جبکہ زمین وآسمان کا تمام کارخانہ اسی کی کارفرمائیوں پر قائم ہے۔ اگر فطرت کائنات برائی  اور  نقصان چھانٹتی نہ رہتی  اور  بقاء  اور  قیام صرف اچھائی  اور  خوبی کے لیے نہ ہوتا تو تمام کارخانہ ہستی درہم برہم ہو جاتا۔

ولواتبع الحق اھوآء ھم لفسدت السموت والارض ومن فیھن(71:23)

یعنی اگر قانون ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگے تو یقین کرو کہ یہ زمین وآسمان  اور  جو کچھ اس میں ہے، سب درہم برہم ہو کر رہ جائے۔ وہ کہتا ہے، امم،ملل،اقوام  اور  جماعات کا اقبال و ادبار ہدایت و شقاوت کا معاملہ بھی اسی قانون سے وابستہ ہے۔ وہ اس سے مستثنیٰ نہیں، یہ کیوں کرہوسکتا ہے کہ جو قانون کارخانہ ہستی کے  ہر گوشہ  اور   ہر ذرہ میں اپنا عمل کر رہا ہے، وہ یہاں آ کر بے کار ہو جائے۔ جس قانون کی وسعت پنہانی سے کائنات کا کوئی ذرہ باہر نہ ہو اقوام و امم کا عروج و اقبال  اور  انزال وادباراس سے کیوں کر رہ جائے۔ وہ کہتا ہے یہاں بھی وہ قانون کام کر رہا ہے۔ قوموں  اور  جماعتوں کے گذشتہ اعمال ہی ہیں جن سے ان کا حال بنتا ہے  اور  حال کے اعمال ہی ہیں جوان کامستقبل بناتے ہیں۔ پھراس کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا۔خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا،جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے یعنی اس بارے میں خودانسان کا عمل ہے، وہ جیسی حالت چا ہے، اپنے عمل  اور  صلاحیت عمل سے حاصل کر لیں۔ اگر ایک قوم بدحال ہے  اور  وہ اپنے اندر ایک ایسی تبدیلی پیدا کر لیتی ہے جس سے خوشحالی پیداہوسکتی ہے۔  تو خدا کا قانون یہ ہے کہ یہ تبدیلی فوراً اس کی حالت بدل دے گی  اور  بدحالی جگہ خوش حالی آ جائے گی۔اس طرح خوشی حالی کی بجائے بدحالی کاتغیرسمجھ لو فرمایا جب ایک قوم نے اپنی عملی صلاحیت کھودی  اور  اس طرح تبدیل حالت کے مستحق ہو گئی تو ضروری ہے کہ اسے برائی پہنچے۔ یہ برائی کبھی ٹل نہیں سکتی کیوں کہ یہ خود خدا کی جانب سے ہوتی ہے۔ یعنی اس کے ٹھہرائے ہوئے قانون کا نفاذ ہوتا ہے  اور  خدا کے قانون کا نفاذ کون ہے جو روک سکے  اور  کون ہے جواس کی زدسے بچا سکے۔ اس کو قرآن استبدال اقوام سے تعبیر کرتا ہے  اور  جابجامسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ اگر تم نے صلاحیت عمل کھودی تو وہ تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اقبال و ارتقاء کی نعمت عظمی سے نوازیں گے  اور  کوئی نہیں جو اس کوایسا کرنے سے روک سکے  اور  پھر وہ دوسری قوم تمہاری طرح صلاحیت و اصلاح سے محروم نہ ہو گی۔بلکہ نیکوں کے ساتھ نرم  اور  بروں کے ساتھ سخت ہوں گے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم یوں ہی قوموں کے دن بدلتے رہتے ہیں  اور  ایک کے ہاتھوں دوسرے کو صفحہ ءہستی سے مٹا دیتے ہیں کیوں کہ اگر ہم ایسانہ کرتے  اور  ایک قوم کے دست تظلم سے دوسری مظلوم قوم کو نجات نہ دلاتے۔ اگر ہم ضعیف کو نصرت سے نہ بخشتے تاکہ وہ قوی کے طغیان وفسادسے محفوظ ہو جائے تو دنیا کا چین  اور  سکھ ہمیشہ کے لیے غارت ہو جاتا  اور  قوموں کی راحت ہمیشہ کے لیے ان سے روٹھ جاتی  اور  اللہ کی زمین پروہ تمام منارے گرائے جاتے جواس کی گھرکی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ وہ تمام مقدس عمارتیں خاک کا ڈھیر ہو جاتیں جن کے اندراس کی پرستش  اور  اس کے ذکر کی پاک صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ یہ حسین و جمیل دنیا ایک ایسی ناقابل تصور ہلاکت و بربادی کا منظر ہو جاتی جس کی سطح پر مردہ انسانوں کی بوسیدہ ہڈیوں  اور  منہدم عمارتوں کی اڑتی ہوئی خاک کے سوا  اور  کچھ نہ ہوتا۔یہ انقلاب جو قوموں  اور  ملکوں میں ہوتے رہتے ہیں، یہ جو پرانی قومیں مرتی  اور  نئی قومیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں، یہ جو قومیں کمزور ہو جاتی ہیں  اور  کمزوروں و ضعیفوں کو باوجود ضعف کے غلبہ کے سامان میسرآجاتے ہیں، یہ تمام حوادث اسی حکمت  اور  قانون الٰہی کا نتیجہ ہیں جو تمام کائنات ہستی میں کارفرما ہے  اور  جس کا نام بقاء اصلح یا بقاء انفع کا قانون فطرت ہے۔ یہ سب کچھ اس کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ اس لیے جو قوم حق پر ہے وہی نافع ہے  اور  اس کے لیے ثبات و بقاء ہے، اقبال و عروج ہے۔  اور  جو قوم جادۂ حق سے منحرف ہو،وہی باطل پر ہے  اور  غیر نافع ہے  اور  اس کے لیے بربادی ہے، فنا ہے  اور  زوال ونیستی ہے۔

پھر دیکھو قرآن کریم نے اس نازک  اور  دقیق حقیقت کے لیے کیسی صاف  اور  عام مثال بیان کر دی جس کے معائنہ سے کوئی انسانی آنکھ بھی محروم نہیں ہوسکتی فرمایا۔جب پانی برستا ہے  اور  زمین کے لیے شادابی و گل ریزی کاسامان مہیا ہونے لگتا ہے توہم دیکھتے ہیں کہ تمام وادیاں نہروں کی طرح رواں ہو جاتی ہیں۔ لیکن پھر کیا تمام پانی رک جاتا ہے۔ کیا میل کچیل  اور  کوڑا کرکٹ اپنی اپنی جگہ تھمے رہتے ہیں۔ کیا زمین کی گود ان کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔ نئی زمین کو اپنی نشو و نما کے لیے جس قدر پانی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ جذب کرتی ہے۔ ندی نالوں میں جس قدرسمائی ہوتی ہے۔ اتنا ہی وہ پانی روک لیتے ہیں۔ باقی پانی جس تیزی کے ساتھ گرا تھا،اسی تیزی سے بہہ بھی جاتا ہے۔ میل کچیل  اور  کوڑا کرکٹ جھاگ بن کرسمٹتا  اور  ابھرتا ہے۔ پھر پانی کی روانی اسے اس طرح اٹھا کر لے جاتی ہے کہ تھوڑی دیر کے  بعد وادی کا ایک ایک گوشہ دیکھ جاؤ،کہیں ان کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا۔اس طرح جب سوناچاندی یا  اور  کسی دھات آگ پر تپاتے ہو۔تو کھوٹ الگ ہو جاتا ہے۔ خالص دھات الگ نکل آتی ہے۔ کھوٹ کے لیے نابود ہو جانا ہے  اور  خالص دھات کے لیے باقی رہنا ہے۔

ایساکیوں ہوتا ہے، اس لیے کہ یہاں بقاء انفع کا قانون کام کر رہا ہے۔ یہاں باقی رہنا اس کے لیے ہے جو نافع ہو۔جو نافع نہیں وہ چھانٹ دیا جائے گا۔یہی حقیقت حق  اور  باطل کی ہے حق وہ بات ہے جس میں نفع ہے۔ پس وہ کبھی مٹنے والی نہیں۔ ٹکنا اس کے لیے ثابت ہوا،باقی رہنا اس کا خاصہ ہے۔  اور  حق کے معنی ہی قیام و ثبات کے ہیں لیکن باطل وہ ہے جو نافع نہیں اس لیے اس کا قدرتی خاصہ یہ ہوا کہ مٹ جائے، محو ہو جائے، ٹل جائے۔

ان الباطل زھوقا(81:17)

اس حقیقت کا ایک گوشہ ہے۔ جس ہم نے بقاء اصلح کی شکل میں دیکھا ہے  اور  قرآن نے اس کو اصلح بھی کہا ہے۔  اور  انفع بھی کیوں کہ صالح وہی ہے جو نافع ہو۔کارخانہ ہستی کی فطرت میں بناوٹ  اور  تکمیل ہے  اور  تکمیل جب ہی ہوسکتی ہے۔ جبکہ حرف نافع اشیاء میں باقی رکھے جائیں۔ غیر نافع چھانٹ دیے جائیں۔ قرآن نے نافع کو حق سے  اور  غیر نافع کو باطل سے تعبیر کیا کہے  اور  اس تعبیرسے ہی اس نے حقیقت کی نوعیت واضح کر دی کیوں کہ حق اسی چیز کو کہتے ہیں جو ثابت  اور  قائم رہے  اور  اس کے لیے مٹ جانا،زوال پذیر ہونا  اور  فناء و نابود ہونا ممکن نہ ہو۔ اور باطل کے معنی ہی یہی ہیں یعنی مٹ جانا  اور  محو ہو جانا۔پس وہ جب کسی بات کے لیے کہتا ہے کہ یہ حق تو یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ دعویٰ کے ساتھ اس کے جانچ کا معیار بھی پیش کیا جاتا ہے کہ یہ بات حق ہے اس لیے نہ مٹنے والی  اور  نہ ٹلنے والی بات ہے  اور  اس کے ثبوت و وجود قیام و بقاء کے لیے صرف اس کا حق ہونا کافی ہے  اور  جب یہ کہا جائے کہ یہ باطل ہے یعنی نہ ٹک سکنے والی،ٹلنے والی ہے۔ اس عدم و زوال پذیری کے لیے اس کا باطل ہونا ہی کافی ہے۔ مزید دلیل کی حاجت نہیں۔ یہ دونوں اصطلاحیں قرآن کے مہمات معارف میں سے ہیں۔  لیکن افسوس کہ علماء نے غور نہیں کیا۔ورنہ بعض اہم مقامات میں دور از کار تاویلوں کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اور اگر یہ ایک حقیقت سمجھ لی جائے تو ہماری پستی  اور  ادبار کے لیے ان وہی اسباب تنزل و ادبار کی ضرورت ہی نہ تھی۔

لیکن افسوس کہ قوم کے رہنماؤں نے غوروفکرسے کام نہ لیاتوکسی نے باعث ادبارکسی وہمی بات کو بنا لیا،کسی نے تقلید یورپ کو اور کسی نے تملق و خوشامد غلامانہ کو۔

تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ لیکن اتنی بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ قرآن نے ہمارے ظہور کی علت غائی جو فرمائی ہے وہی ہمارے عروج کی بھی علت غائی قرار دی ہے۔ یعنی

کنتم خیرامۃ اخرجت للناس(110:3)میں ہمارے ظہور کا مقصد نفع خلائق قرار دیا ہے۔ یوں ہی:۔

الذین ان مکناھم فی الارض اقاموالصلوۃ واتوا الزکوۃ وامروابالمعروف ونھوعن المنکر(41:22)

میں ہمارے عروج کی علت غائی بھی اس نے یہی قرار دی ہے۔ کہ اقامتہ الصلوۃ نظام زکوٰۃ  اور  امر بالعمروف  و نہی عن المنکر۔یہ تینوں باتیں نفع رسانی خلائق کے لیے ہیں، تو گویا ہمارا ظہور و عروج دونوں نفع رسانی ناس کے لیے تھے۔ یعنی اللہ کی سلطنت قائم کرنا  اور  عدل الٰہی کو دنیا میں غلبہ دیناجس سے بڑھ کر کوئی نفع نہیں۔  اور  یہی معنی ہیں صفات الہیہ کے مظہر ہونے کے کیوں کہ مظہریت  بغیر تین باتوں کے ہو نہیں سکتی۔پہلی بات وحدت مرکزیہ کا قیام ہے جس کے لیے اقامۃ  الصلوٰۃ  کا حکم ہے، دوسری بات ہے اشتراک مال کی اسلامی صورت جس کی طرف نظام زکوٰۃ کے ذریعہ رہنمائی کی گئی  اور  تیسری بات ہے عدل الٰہی کا قیام۔سووہی چیز امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے  اور  یہی مقصد اعلیٰ امور عظام میں سے ہے۔

ہم جب تک اپنے ظہور و عروج کے مقاصد کوسنبھالے رکھا تو دنیا کے لیے نافع رہے۔ اس لیے ہمیں تکمیل فی الارض حاصل رہا  اور  جب سے ہم نے اپنے ظہور و عروج کا مقصد بھلا دیا تو پھر ہمیں اس منصب سے بھی محروم ہونا پڑا  اور  قومی زندگی کی بجائے قومی موت کاسامناہواتوخدارابتلاؤکہ ہم بدبختوں  اور  سیاہ کاروں کا کیا حق ہے کہ قومی موت کاسامناہواتوخدارابتلاؤکہ ہم بدبختوں  اور  سیاہ کاروں کا کیا حق ہے کہ قومی زندگی  اور  اجتماعی ترقی کا دعویٰ کریں۔ آج نہ ایمان کی دولت ساتھ ہے  اور  نہ طاعات وحسنات کی پونجی دامن میں۔ زندگی یکسرغفلت و معصیت میں برباد اور عمریں یک قلم نفس پرستی و نافرمانی میں تاراج۔اغراض نفسیاتی کی پرستش  اور  نفاق،نافرمانی  اور  انکار۔ پھر نہ ندامت و ملامت  اور  نہ ہی توبہ و انابت،توخدارابتلاؤکس منہ سے ہم اپنی زندگی و بقا کے مدعی بن سکتے ہیں۔ فواحسرتاومصیبتاۃ۔

اصل یہ ہے کہ نظام عالم کے قوانین اساس کی بنیاد صرف قیام عدل کی ناقدانہ قوت پر ہے۔ خداوند تعالیٰ دنیا میں انبیاء علیہم ا لسلام کو بھی ا س لیے بھیجتا رہتا ہے کہ دنیا میں اللہ کے عدل کو قائم کریں۔ لیکن چوں کہ اس کے لیے اکثر اوقات قہر و غلبہ کی قوت قاہرہ بھی دیتا رہا  اور  استیلاواستقلاء کی نعمت عظمی سے نوازا تاکہ دنیاسے ظلم و برائی کا خاتمہ ہو جائے  اور  عدل الٰہی کا دور دورہ ہو اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا فرض منصبی بھی امر بالمعروف  اور  نھی عن المنکر قرار دے کران کو قیام عدل کے لیے منتخب فرمایا  اور  میزان عدل قسطاس المستقیم  اور  صراط مستقیم کا قانون اجتماعی دے کر دنیا والوں کے لیے ان کو شہداء یعنی حق کو گواہی دینے والا بنایا۔

پس مسلمانوں کے ظہور کی اصل علت غائی صرف یہ ہے کہ شہادۃ علی الناس کا فریضہ باحسن وجود پورا ہو۔یہی وجہ کہ تمکین فی الارض والی آیۃ کے سواء جہاں کہیں بھی ان کے ظہور کے علت غائی سی نشاندہی فرمائی۔کسی جگہ بھی اقامۃ الصلوٰۃ و آتو  الزکوٰۃ کا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف شھادۃ علی ا لناس و امر بالمعروف و نھی عن المنکر پر زور دیا۔فرمایا۔

کذالک جعلناکم امۃ وسطالتکونواشھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا(143:2)

یعنی اس طرح ہم نے تم کو امت درمیانی بنایا تاکہ  اور  لوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو اور تمہارے مقابلے میں تمہارارسول گواہ ہو اور فرمایا۔

ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکرواولنک ھم المفلحون(104:3)

یعنی تم میں ایک جماعت ہونی چاہیے جو دنیا کو نیکی کی دعوت دے بھلائی کا حکم کرے  اور  برائی سے روکے وہی فلاح یافتہ ہیں  اور  فرمایا۔

کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر(115:3)

یعنی تمام امتوں میں سب سے بہتر امت ہو کہ اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔

ان تینوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا اصلی مشن مقصد تخلیق  اور  قومی امتیاز و شرف خصوصی اس چیز کو  قرار دیا ہے کہ دنیا میں اعلان حق ان کاسرمایہ زندگی ہے۔  اور  وہ دنیا میں اس لیے کھڑے کئے گئے ہیں کہ خیر کی طرف داعی ہوں  اور  نیکی کا حکم دیں  اور  برائی کو جہاں کہیں دیکھیں اس کو روکیں۔ عمران و تمدن کے تمام اصولوں  اور  قوانین کا متن قرآن کاہی اصل اصول ہے اسی اصول کی ہمہ گیری ہے کہ امم قدیمیہ کے حالات ہم پڑھتے ہیں تو ہر قوم کا ایک دور عروج ہمارے سامنے آتا ہے  اور  دوسرازمانہ انحطاط ان دونوں میں ما بہ الامتیاز اور فاصل اگر کوئی چیزہوسکتی ہے تو وہ قیام عدل  اور  نفاذ جور و جفا ہے۔

جب تک قومیں قیام عدل میں مساعی  اور  جدوجہد کرنے والی ہوتی ہیں۔ تو فتح و کامرانی نصرت الٰہی و کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ لیکن جب قیام عدل کی بجائے۔        افشاء ظلم  اور  ترویج جوروستم ان کا شعار بن جاتا ہے تو پھر قانون فطرت حرکت میں آتا ہے  اور  بیک جنبش ان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیتا ہے  اور  پھر ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔

دور جانے کی ضرورت نہیں خود اپنی تاریخ کو اٹھا کر دیکھو۔جب تک ہم دنیا میں حق  اور  انصاف کے حامی و مددگار رہے تو خدا تعالیٰ بھی ہمارا مددگار رہا  اور  دنیا کی کوئی طاقت بھی ہمارے سامنے نہ ٹھہرسکی۔لیکن جوں ہی تاریخ اسلام کا عہد تاریک شروع ہوا  اور  علم و مذہب،اعلان حق  اور  دفع باطل کے لیے نہ رہا بلکہ حصول عز و جاہ  اور  حکومت وتسلط کے لیے آلہ کاربن گیا  اور  اس طرح علم و مذہب حصول قوت حکمرانی  اور  دولت جاہ دنیوی  کا ذریعہ بن گیا تو اجتماعی فسادات  اور  امراض کے چشمے پھوٹ پڑے۔ حکام عیش و عشرت کی زندگی بسرکرنے لگے  اور  علماء  اور  فقہاء ان کے درباروں کی زینت بن گئے تو قوت  حاکمۂ کائنات کے دست قدرت نے بھی استبدال اقوام  اور  انتخاب ملل کے فطری قانون کو حرکت دی  اور  عمل بالمحاذات کے دستوراٹل کو عمل میں لائی۔تو پھر ہمارے ادبار اور شقاوت کونہ ہماری حکومت روک سکی  اور  نہ ہی عسکری قوت۔رسوائی و ذلت کے اس بحر متلاطم کے تھپیڑوں سے نہ علماء و مشائخ بچ سکے  اور  نہ عمال  اور  زاہد۔

آج جنتی رسواء عالم مسلمان قوم ہے شاید ہی کوئی قوم اس درجہ مغضوب و مقہور ہوئی ہو۔

وضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ وباءوبغضب من اللہ (61:2)کا مصداق بنی اسرائیل کے بعد ہم ہی ہیں۔

وتلک الایام نداولھابین الناس(140:3)

یہ گردش ایام قوموں  اور  ملتوں، جماعتوں  اور  لوگوں کے درمیان ہمیشہ جاری وساری رہا کرتی ہے۔ اس کی گرفت سے دنیا کا کوئی شاہ نہیں بچ سکتا۔یہ اٹل  اور  لازوال حقیقت ہے۔