ہاتھ دھونے کے بہترین طریقے کون کون سے ہیں؟
پہلا قدم: بہتے ہوئے پانی سے اپنے ہاتھ گیلے کریں۔
دوسرا قدم: ہاتھوں پر اتنا صابن لگائیں کہ آپ کے گیلے ہاتھ پوری طرح صابن کی جھاگ میں چھپ جائیں۔
تیسرا قدم: ہاتھوں کی دونوں جانب سطح، انگلیوں کے درمیان اور ناخنوں کے اندرونی حصوں کو اچھی طرح رگڑیں۔
چوتھا قدم: بہتے ہوئے پانی سے اپنے ہاتھ اچھی طرح دھو لیں۔
پانچواں قدم : اپنے گیلے ہاتھ کسی صاف کپڑے یا ایسے تولیے سے صاف کرلیں جو صرف آپ کے استعمال میں ہو۔
دن میں کئی بار ہاتھ دھوئیں، خاص طور پر کھانے سے پہلے ، ناک صاف کرنے کے بعد ، کھانسی اور چھینک کے بعد اور بیت الخلا میں جاتے ہوئے۔
اگر صابن اور پانی فوری طور پر دستیاب نہ ہوں تو ہاتھ صاف رکھنے والا ایسا محلول استعمال کریں جس میں 60 فی صد الکوحل شامل ہو۔ اگر ہاتھ دھول مٹی سے اٹے ہوں یا واضح طور پر میلے دکھائی دیں تو ہمیشہ صاف پانی اور صابن سے اچھی طرح دھوئیں۔
کیا مجھے طبی ماسک پہننے کی ضرورت ہے؟
طبی ماسک پہننے کا مشورہ اس وقت دیا جاتا ہے جب آپ میں سانس کی علامات (کھانسی اور چھینک) ظاہر ہوچکی ہوں اور اس صورت میں ماسک پہننے کا مشورہ اس لئے دیا جاتا ہے تاکہ دوسرے محفوظ رہیں۔ تاہم اگر آپ میں ایسی علامات ظاہر نہیں ہوئیں ، تو آپ کو ماسک پہننے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اگر آپ ماسک پہن رہے ہیں تو لازم ہے کہ آپ انہیں ضائع کرتے وقت حفاظتی تدابیر مدِ نظر رکھیں تاکہ ماسک موثر رہیں اور وائرس کی منتقلی کے اضافی خطرات سے بچا جاسکے۔
بیماری سے بچنے کے لئے صرف ماسک کا استعمال ہرگز کافی نہیں۔ اس کے لئے بار بار ہاتھ دھونا ، چھینک اور کھانسی کے دوران منہ اور ناک کو ڈھانپنا اور ایسے لوگوں سے دُور رہنا بھی ضروری ہے جن میں نزلہ زکام کی علامات مثال کے طور پر کھانسی ، چھینکیں اور بخار کی صورت میں ظاہر ہوچکی ہوں۔
کیا بچے بھی کووِڈ- 19 کا شکار ہوسکتے ہیں؟
یہ ایک نیا وائرس ہے اس لئے ہم اس کے بارے میں خاطر خواہ معلومات نہیں رکھتے کہ یہ بچوں اور حاملہ خواتین پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ وائرس ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ تاہم اس وقت تک کورونا وائرس کا شکار ہونے والے بچوں کے صرف چند ایک کیس منظرِ عام پر آئے ہیں۔ اس وائرس سے ہونے والی بیماری
شازو نادر ہی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ اس بیماری کے نتیجے میں موت کا شکار عام طور پر ایسے معمر یعنی بزرگ افراد ہوتے ہں جو پہلے ہی بیماریوں کا شکار ہوں۔
اگر میرے بچے میں کووِڈ- 19 کی علامات ظاہر ہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟
بچوں میں کووِڈ- 19 کی علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر مرکزِ صحت سے رجوع کریں تاہم ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اگر شمالی کرہِ ارض پر نزلے زکام کا موسم ہے اور کووِڈ- 19 کی علامات مثال کے طور پر نزلہ زکام اور بخار بھی فلو سے ملتی جلتی ہیں اور فلو کی بیماری بہت عام ہے۔
اپنے ہاتھوں اور سانس کی نالیوں کو صاف رکھیں اور اپنے بچے کی ویکسینیشن کے عمل کا تسلسل یقینی بنائیں تاکہ آپ کا بچہ دیگر تمام وائرس اور بیکٹیریا جو بیماریاں پیدا کرتے ہیں، ان سے محفوظ رہے ۔
نظامِ تنفس کی دیگر بیماریوں مثلا نزلے زکام کی صورت میں علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر مرکزِ صحت سے رجوع کریں اور عام مقامات مثال کے طور پر کام کاج کی جگہ، سکولوں اور عوامی سواریوں یعنی بس، ویگن وغیرہ کے استعمال سے گریز کریں تاکہ دوسروں تک اور اُن سے آپ تک بیماری کے پھیلاؤ کا عمل روکا جاسکے۔
اپنے خاندان میں علامات ظاہر ہونے پر مجھے کیا کرنا چاہیے؟
اگر آپ کے, آپ کے بچے یا خاندان کے کسی فرد میں بخار ، کھانسی یا سانس لینے میں دشواری پیش آنے جیسی علامات ظاہر ہو چکی ہیں تو فوری طور پر مرکزِ صحت سے رجوع کریں۔ اگر آپ کسی ایسے علاقے کا سفر کرکے لوٹے ہیں جہاں کووِڈ- 19 کا کیس منظرِ عام پر آچکا ہے، یا اگر آپ کسی ایسے شخص کے پاس رہے ہیں جو ایسے ہی کسی علاقے میں رہنے کے بعد واپس آیا ہے اور اس میں بیماری کی علامات بھی ظاہر ہوچکی ہیں تو اگر ممکن ہو تو ڈاکٹر کے پاس جانے سے قبل اسے یہ تمام معلومات فون پر فراہم کریں۔
کیا میں اپنے بچوں کو سکول نہ بھیجوں ؟
اگر آپ کے بچے میں علامات ظاہر ہوچکی ہیں تو اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کی ہدایات پر عمل کریں۔ دوسری صورت میں، جیسا کہ سانس کی دیگر بیماریوں مثلا فلو کی صورت میں کیا جاتا ہے ، جب تک علامات باقی رہیں اپنے بچے کو گھر پر آرام کرنے دیں اور رش کے عوامی مقامات، یعنی پارک، بازار، تقاریب و محافل وغیرہ پر جانے سے گریز کریں تاکہ وائرس کا پھیلاؤ روکا جاسکے۔
اس کے برعکس اگر آپ کے بچے میں بیماری کی علامات یعنی بخار یا کھانسی وغیرہ ظاہر نہیں ہوئیں تو جب تک صحت عامہ کے حکام یا پھر خطرات سے خبردار کرنے والے دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے خطرے کی اطلاع نہیں دی جاتی ، بچے کو سکول بھیجنا بہتر ہے۔ اس سلسلے میں وزارتِ صحت سے جاری کردہ احکامات کا انتظار کریں اور ان پر عمل کریں۔
اپنے بچوں کو سکول نہ بھیجنے کے بجائے انہیں سکول اور دیگر مقامات پر ہاتھ اور اپنے آپ کو صاف رکھنا سکھائیں مثلاً بار بار ہاتھ دھونا (نیچے ملاحظہ فرمائیں)، کھانسی یا چھینک کے دوران منہ اور ناک کہنی موڑ کر یا ٹشو کی مدد سے ڈھانپنا، اس کے بعد استعمال شدہ ٹشو ایسے کوڑا دان میں ضائع کرنا جسے ڈھکن کے ذریعے بند کیا جاسکتا ہو ، آنکھ منہ اور ناک کو ہاتھ اچھی طرح دھونے سے قبل نہ چھونا وغیرہ۔
سفر پر نکلنے کی صورت میں ، میں اپنے خاندان کی حفاظت کے لئے کون سے حفاظتی اقدامات اٹھاؤں؟
جو کوئی بیرون ملک سفر کا منصوبہ بنا رہا ہے ، سفر سے پہلے سفر سے متعلق مشورہ فراہم کرنے والے اداروں سے رابطہ کرے اور اس دوران یہ جاننے کی کوشش کرے اس ملک میں داخلہ محدود تو نہیں کردیا گیا یا پھر داخلے پر پابندی تو نہیں لگا دی گئی، سفر سے قبل وبائی بیماریوں کا شکار ہونے والوں کو الگ رکھنے کی حکمتِ عملی (قرنطینہ کی ضروریات کی نوعیت ) اور متعلقہ کیا سفری مشورے دیے جارہے ہیں۔
عمومی سفری احتیاط کے علاوہ، قرنطینہ یا دوبارہ اپنے وطن واپس بھیج دیے جانے سے بچنے کے لئے بین الاقوامی ائیر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ سے کووِڈ- 19 کے سلسلے میں تازہ ترین ہدایات دیکھنا مت بھولیں۔ اس ویب سائٹ پر مختلف ممالک کی فہرست اور روک تھام کے اقدامات کی جملہ تفصیلات موجود ہیں۔
سفر کے دوران تمام والدین اور بچے صحت و صفائی کے بتائےگئے معیاری اقدامات پر عمل کریں۔ بار بار ہاتھ دھوئیں اور الکوحل پر مبنی ایسا محلول استعمال کریں جس میں 60 فی صد الکوحل شامل ہو۔ کھانسی کرتے یا چھینکتے وقت منہ اور ناک کہنی موڑ کر یا پھر ٹشو سے ڈھانپ لیں اور اس کے فوراً متاثرہ ٹشو ایسے کوڑا دان میں ضائع کردیں جسے ڈھکن سے بند کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ والدین دورانِ سفر ہر وقت ہاتھ صاف کرنے کا محلول، استعمال کے بعد ضائع کردیے جانے والے ٹشوز اور جراثیم سے سے پاک کرنے والے پونچھنے (wipes) اپنے ساتھ رکھیں۔
مزید احتیاطی تدابیر میں یہ اقدامات شامل ہیں: جہاز یا گاڑی میں بیٹھتے ہی جراثیم کش پونچھنے سے اپنی سیٹ ، بازؤں کو آرام دینے والی گدیاں اور ٹچ سکرین وغیرہ اچھی طرح صاف کرلیں۔ اس کے علاوہ جراثیم کش پونچھنے سے گاڑی ، جہاز ہوٹل کے اس کمرے میں جہاں آپ یا آپ کے بچے قیام کررہے ہوں، کی زیر استعمال جگہیں، دروازوں کے ہینڈل اور ریموٹ کنٹرول وغیرہ بھی اچھی طرح صاف کرلیں۔
کیا کورونا وائرس حاملہ خواتین سے پیدا ہونے والے بچے کو منتقل ہوسکتا ہے؟
اس وقت تک اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ کورونا وائرس حمل کے دوران خواتین سے ان کے ہونے والے بچوں میں منتقل ہوسکتا ہے یا بچے پر اثرا انداز ہوسکتا ہے۔ اس بات پر اس وقت تحقیق کی جارہی ہے۔ اس لئے حاملہ خواتین کو چاہیے کہ وہ وائرس سے بچنے کے لئے حفاظتی تدابیر پر عمل کریں اور بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر اپنے معالج یا مرکزِ صحت سے رجوع کریں۔
اگر بچے کو اپنا دودھ پلانے والی ماں کورونا وائرس کا شکار ہوجائے تو کیا وہ بچے کو اپنا دُودھ پلا سکتی ہے؟
کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والی ایسی مائیں جن میں بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات ظاہر ہوچکی ہوں ، فوری طور پر مراکزِ صحت سے رجوع کریں اور اپنے ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں۔
ماں کے دودھ کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ نظامِ تنفس کو متاثر کرنے والا وائرس ماں کے دودھ پر بہت حد تک اثر انداز نہیں ہوتا، کورونا وائرس سے متاثرہ مائیں حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے بچوں کو اپنا دُودھ پلا سکتی ہیں۔
ایسی ماؤں کے لئے ضروری ہے ، جن میں بیماری کی علامات ظاہر ہوچکی ہوں اور ان کی صحت بچے کو اپنا دودھ پلانے کی اجازت بھی دیتی ہو، کہ وہ اپنے بچے کو قریب لاتے اور دُودھ پلاتے وقت ماسک پہنیں اور اس کے علاوہ بچے کو صاف کرنے ، دودھ پلانے اور مختلف چیزوں کو جراثیم سے پاک کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی اپنے ہاتھ ضرور دھوئیں ۔ یہ سب اقدامات اٹھانا اس صورت میں بھی ضروری ہیں جب ماں کے علاوہ کوئی ایسا شخص بڑوں یا بچوں کے قریب آئے جس میں کووِڈ- 19 کی تصدیق ہوچکی ہو یا پھر جسے کووِڈ- 19 ہونے کا امکان ہو۔
اگر ماں زیادہ بیمار ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا دُودھ نکال کر کسی صاف کپ یا چمچ کی مدد سے بچے کو پلائے اور بیماری سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر پر بھی سختی سے عمل کرتی رہے۔
مجھے پریشانی لاحق ہے کہ کورونا وائرس سے بیمار ہونے پر مجھے خوفزدہ کیا جائے اور مجھے امتیازی سلوک اور رسوائی کا سامنا ہوگا؟ اس وائرس سے متاثر ہونے کے بعد میں اپنی صورتِ حال سے لوگوں کو کیسے آگاہ کروں؟
اگر آپ کورونا وائرس کے سلسلے میں پریشان ہیں تو آپ کی پریشانی بخوبی سمجھی جاسکتی ہے۔ خوف اور رسوائی مشکل صورتِ حال کو بدترین صورتِ حال میں بدل دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، دنیا بھر سے ایسی رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ کچھ افراد، خاص طور پر ایشیائی لوگوں کو، زبانی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
صحتِ عامہ کے ہنگامی حالات متاثر ہونے والے ہر شخص کے لئے بہت زیادہ دباؤ کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے ایسی صورتِ حال میں خود کو معلومات سے آگاہ رکھنا ، مہربان اور دوسروں کی حمایت کرنے والا ثابت کرنا پہلے سے زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ الفاظ اہمیت رکھتے ہیں اور ایسی زبان استعمال کرنے سے لوگ کووِڈ- 19 کا ٹیسٹ کرانے سے اجتناب کرنے لگیں گے جو پہلے سے موجود فرسودہ تصورات کو مضبوط کرتی ہو۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ زبان کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے لوگ خود کو ، اپنے خاندانوں کو اور اپنے قریبی لوگوں کو کورونا وائرس سے نہ بچا پائیں۔
آپ اپنے بچوں ، خاندان اور دوستوں سے کورونا وائرس کے سلسلے میں کیسے بات کرسکتے ہیں؟
نیچے دی گئی مثالوں کی مدد سے یہ جانیے کہ آپ کیا کہہ سکتے ہیں اور کیا نہیں کہہ سکتے۔
بات کریں: نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووِڈ- 19 کے بارے میں بات کریں۔
بات نہ کریں: کسی جگہ یا نسل کا بیماری سے تعلق جوڑنا۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ وائرس خاص آبادیوں، نسلوں اور نسلی پس منظر کو ذہن میں رکھ کر حملہ آور نہیں ہوتے۔
بات کریں: ان لوگوں کے بارے میں بات کریں جو کووِڈ- 19 شکار ہوچکے ہیں اور جن کا علاج کیا جارہا ہے۔ جو لوگ کووِڈ- 19 سے صحت یاب ہورہے ہیں یا پھر جو لوگ کووِڈ- 19 کا شکار ہونے کے بعد مرچکے ہیں۔
بات نہ کریں: لوگوں کا کووِڈ- 19 کی بیماری ، کیس یا پھر کووِڈ- 19 بیماری کے شکار کے طور تعارف نہ کرائیں۔
بات کریں: ان لوگوں کے بارے میں بات کریں جنہیں کووِڈ- 19 لگ چکا ہے ، یا لگنے والا ہے۔
بات نہ کریں: لوگوں کو کووِڈ- 19 پھیلانے والوں ، لگانے والوں اور عام کرنے والوں کے طور پر متعارف نہ کرائیں کیونکہ اس سے یہ مراد ہوگی کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر دُوسروں کو بیماری کا شکار کیا ہے اور وہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ انہیں موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے ۔
بات کریں: کووِڈ- 19 کے خطرات کے سلسلے میں سائنسی اعداد و شمار اور سرکاری ہدایات کی روشنی میں بات کریں۔
بات نہ کریں: افواہیں اور غیر مصدقہ باتیں نہ پھیلائیں۔ لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے مبالغہ آمیز الفاظ جیسے طاعون ، تباہی وغیرہ استعمال نہ کریں۔
بات کریں: موثر حفاظتی اقدامات پر مثبت انداز میں زور دے کر بات کریں اور ہاتھ دھونے کا مشورہ دیں۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ ایک ایسی بیماری ہے جس پر وہ قابو پاسکتے ہیں۔ ہم چند سادہ اور آسان اقدامات اٹھا کر اپنی ، اپنے پیاروں کی اور ان لوگوں کی حفاظت کرسکتے ہیں جنہیں یہ وائرس نقصان پہنچا سکتا ہے۔